بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا |
امریکہ کا فردو پر حملہ ایک خالی سائٹ پر ہوا تھا، جس میں نہ تو جانی نقصان ہوا اور نہ ہی فردو کے بنیادی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچا۔ اس حملے کی اصل اہمیت یہ تھی کہ ایران کی ارضی سالمیت کی خلاف ورزی ہو اور یہ تاثر دیا جائے اور یہ خبر پھیلائی جائے کہ 'امریکہ نے جنگ میں مداخلت کی ہے۔
تو پھر امریکہ کا اصل مقصد کیا تھا؟ میرا خیال ہے کہ امریکہ کا ہدف 'ایران کے جوہری تاسیسات کو تباہ کرنا' نہیں تھا کیونکہ یہ ایک غیر حقیقی ہدف ہے، حالانکہ دشمن کے ذرائع ایسا تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
میرے خیال میں بنیادی اہداف یہ تھے:
(1) ایران کو تنبیہ اور اپنی قسمت آزمانا، امید کرتے ہوئے کہ ایران پیچھے ہٹ جائے اور اسرائیل پر حملے روک دے،
(2) اسرائیل کے خلاف جنگ میں ایرانی کمانڈروں کی توجہ کو منتشر کرنا اور ایران کے لئے نئے محاذ کھولنا،
(3) ایران-اسرائیل جنگ سے "ایک فاتحانہ اختتام" کی روایت بنانے کی طرف بڑھنا،
(4) صہیونی لابی کے دباؤ سے نکلنا جو امریکہ کی سیاسی دھاروں میں سب سے طاقتور لابیز میں سے ایک ہے۔ میں انہیں "چار اہداف" کا نام دیتا ہوں۔
ہم جانتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایک مہنگی اور طویل اور تھکا دینے والی جنگ میں داخل ہونے کے لئے تیار نہیں تھے اور نہیں ہیں۔ سستے راستے، جیسے کہ خطے میں جنگی جہاز تعینات کرکے ڈرانا دھمکانا، ایک ترجیح تھا۔ جب ہمارا مضبوط عزم واضح ہوگیا اور دھمکیاں بے اثر ہوئیں تو امریکہ نے ایسی فوجی مداخلت کے درپے تھا جو فوجی لحاظ سے چھوٹی اور مختصر ہو، لیکن ابلاغیاتی اور سیاسی لیاظ سے بڑی اور اہم ہو؛ ایک کھوکھلے ڈھول کی طرح جو بس دھوم مچا دے، تاکہ ایران کے ساتھ بڑے پیمانے پر تنازعہ پیدا نہ ہو اور دوسری طرف سے "چوگنی اہداف" کو پورا کر سکے۔ اس حملے کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایران کو یا تو نئے اسٹیک ہولڈرز اور مخالف محاذ پر نئے مخالفین کے انتخاب کا سامنا کرنا پڑے گا کہ وہ پڑوسی ممالک میں امریکی اڈوں کو نشانہ بنا کر اپنے لئے ایک نیا محاذ کھولے یا آبنائے ہرمز کو بند کر کے تیل کی قیمتیں بڑھا دے، چین اور بعض دوسرے ممالک کی حمایت کھو دے اور دنیا کے بہت سے ممالک کو معاشی نقصان پہنچائے۔ اگر ایران نے جواب نہ دیا تو یہ بیانیہ میڈیا میں امریکہ کا فاتحانہ انجام ہوتا۔ نئے محاذ میں مصروف ہونے کا اثر اسرائیل پر میزائل حملوں پر بھی پڑ سکتی تھی۔
ایران کا جواب انتہائی زیرکانہ اور نفیس تھا
1۔ ایران نے اسرائیلی ریاست پر میزائل حملے جاری رکھے، جو ظاہر کرتا ہے کہ امریکی فوجی مداخلت بھی ایران کو اسرائیل کے خلاف جنگ روکنے سے باز نہیں رکھ سکتی۔
2۔ ایران نے فوجی طور پر بڑا ردعمل نہ دیتے ہوئے، اپنے خلاف نئے محاذ نہیں کھولے، جس سے وہ اسرائیل کے ساتھ جنگ پر اپنی توجہ مرکوز رکھنے میں کامیاب رہا۔
3۔ امریکہ کی "فتح کی جعلی کہانی" بے نقاب ہوئی، کیونکہ تمام ذرائع ابلاغ نے مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کے اہم ترین ائیربیس (العدید) پر ایران کے کامیاب میزائل حملوں
کو پوری طرح کوریج دی۔ یہ امریکی بالادستی کے جھوٹے دعوؤں اور ان کی "فتح کی کھوکھلی روایت" کو تاراج کرنے کے لئے کافی تھا۔
4۔ یہ پیغام خطے کے تمام ممالک کو دے دیا گیا کہ ایران ضرورت پڑنے پر، میزبان ملک کی اجازت کے بغیر بھی امریکی فوجی اڈوں کو نشانہ بنانے سے گریز نہیں کرے گا۔ دوسرے الفاظ میں، خطے میں میزبان ملک کی رضامندی کے بغیر امریکی اڈوں کو نشانہ بنانے کی ممانعت و حرمت کی دیوار بھی ٹوٹ گئی۔
یہ ہمارے لئے ایک نیا تجربہ تھا، اور ہمیں اس کے ممکنہ نتائج کو سمجھنے کا موقع میسر آیا۔ اگر وسیع پیمانے پر حملہ ہوتا، تو قطر کی حکومت کے زیادہ شدید اور سخت ردعمل کا امکان تھا۔ فی الحال، قطر نے ایران کی مداخلت کی مذمت پر اکتفا کیا ہے، اور اس سے زیادہ ردعمل کا امکان کم لگتا ہے۔ ایران کا جواب پوری دنیا کی نظروں کے سامنے تھا اور اسے میڈیا سنسرشپ سے نہیں چھپایا جا سکا۔ اس نے امریکہ اور دیگر دشمن ممالک کے لئے دوبارہ جنگ میں جانے کی قیمت بڑھا دی۔ اس نے امریکی بالادستی کو توڑا اور بغیر کسی بڑے فوجی نقصان کے، ایران کی عزت و عظمت خطے اور پڑوسی عوام کی نظروں میں بڑھا دی۔
اب کہا جا سکتا ہے کہ ایران کے باریک بینانہ اور متوازن ردعمل نے امریکہ کے فردو جوہری تنصیبات پر حملے کے چاراہداف میں سے تین اہداف کو ناکام بنا دیا ہے:
اسرائیل پر حملے جاری ہیں، ہماری جنگ صہیونی ریاست پر مرکوز ہوگئی۔ "فاتحانہ اختتام کی روایت" کا منصوبہ تباہ ہو چکا ہے۔
تاہم امریکہ کا چوتھا ہدف پورا ہوا ہے: امریکہ "صہیونی لابی" کے اس دباؤ سے نکل گیا ہے کہ وہ ایران-اسرائیل جنگ میں براہ راست مداخلت کرے، اور یہ ہمارے لئے فائدہ مند ہے، کیونکہ اب ایران اور اسرائیل میدان جنگ میں ہیں، اور ہم جانتے ہیں کہ اسرائیل اکھاڑے کے کونے گھر چکا اور روز بروز اپنی بنیادی ڈھانچے سے محروم ہو رہا ہے۔
اس بنیاد پر، صہیونی لابی کی امریکی مداخلت اور اسرائیل کو بچانے کی سازش عملاً ناکام ہو چکی ہے۔ امریکہ کی جنگ میں [وقتی] شرکت کے خاتمے سے، ہماری مداخلت کی نوعیت پر اندرونی سماجی تقسیم کا خطرہ بھی عملاً ختم ہو گیا ہے۔
بے شک، ہم سب کی خواہش تھی کہ ایران کا ردعمل زیادہ شاندار، وسیع ہو اور خطے میں امریکی بنیادی ڈھانچے کو زیادہ نقصان پہنچائے؛ لیکن اب سوچتے ہیں، تو لگتا ہے کہ ہمارے کمانڈروں کا فیصلہ زیادہ دانشمندانہ اور درست تھا جنہوں نے کم سے کم قیمت پر بہترین نتائج حاصل کئے اور دشمن کی سازش کو خوبصورتی سے ناکام بنا دیا۔ اس فتح پر ایرانی قوم اور اسلامی ایران کے کمانڈر مبارکباد کے مستحق ہیں۔
سوشل میڈیا پر بعض لوگ کہتے ہیں: "ایران کا خالی العدید اڈے پر حملہ امریکہ کے لیے ناکافی تھا"۔ اس بیان کے دو مطلب ہو سکتے ہیں: بعض اوقات یہ حوصلہ افزائی اور زیادہ جوش پیدا کرنے کے لئے ہوتا ہے جو کہ اچھی بات ہے، اور بعض اوقات یہ ہمارے کمانڈروں کی حکمت عملی اور ذہانت پر سوال اٹھانے کے لئے ہوتا ہے، جو بدذوقی اور غیر اخلاقی اور ابلاغیاتی لحاظ سے غیر دانشمندانہ عمل ہے۔
اس تحریر کو لکھنے کی میری بنیادی محرک یہ تھی کہ میں اسلامی ایران کے کمانڈروں کے فیصلے میں محسوس ہونے والی ذہانت اور نزاکت کو واضح کروں۔ مجھے ان کمانڈروں پر فخر ہے اور میں ان کے فیصلوں پر پہلے سے زیادہ اعتماد رکھتا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: استاد حسین، حسین کامکار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110